Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

لڑکی کی رحمدلی نے سوداگر کو سزا سے بچالیا

ماہنامہ عبقری - فروری 2018ء

جب سوداگر دربار میں آیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا’’ تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟ یہ تمہاری بیٹی ہونے کا دعویٰ کرر ہی ہے ‘‘۔ بوڑھے سوداگر نے کہا، ’’ جہاں پناہ یہ میری بیٹی نہیں، سوداگر لقمان کی بیٹی ہے جسے مرے ہوئے بہت عرصہ گزر چکا ہے۔

عقل مند لڑکی :بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جونہایت رحم دل اور انصاف پسند تھا ۔ بادشاہ نے محل کے باہر ایک بڑا ساصندوق رکھوایا ہوا تھا جس کسی کوکوئی شکایت ہوتی وہ ایک کاغذ پر لکھ کر اس صندوق میں ڈال دیتا۔ بادشاہ ہفتے میں ایک مرتبہ صندوق کھولتا اور رعایا کی شکایتیں دور کرتا، ایک دن بادشاہ نے صندوق کھولا تو اس میں سے ایک ایسی درخواست نکلی جس میںایک لڑکی نے ملک کے مشہور سوداگر کے خلاف شکایت کی تھی کہ سوداگر اس کا باپ ہے ، لیکن اسے نہ تو کھانے کےلیے کچھ دیتاہے نہ ہی پہننے کے لیے اچھے کپڑے ۔ جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہے۔ بادشاہ نے اسی وقت اپنے وزیر کو حکم دیا کہ جس لڑکی نے یہ درخواست دی ہے اسے فوراََ دربارمیں حاضر کیا جائے۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق ایک لڑکی پھٹے پڑانے کپڑے پہنے بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی، بادشاہ نے پوچھا’’ اے لڑکی تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ لڑکی نے عرض کیا ’’ بادشاہ سلامت میں معافی چاہتی ہوں کہ میں نے جھوٹ بولا، یہ سوداگر میرا باپ نہیں ہے بلکہ میرے باپ کا ملازم ہوا کرتاتھا۔ایک دفعہ میراباپ تجارت کا سامان لے کر جا رہا تھا کہ راستے ہی میں فوت ہو گیا۔ اس سوداگر نے میرے باپ کے مال و دولت پر قبضہ کرلیا۔ جب میں نے اپنے باپ کی دولت اور تجارت کے مال کے متعلق پوچھا تو اس نے قاضی کی عدالت میں بیان دیا کہ میں سوداگر کی بیٹی نہیں ہوں ۔ سوداگر کی کوئی اولاد ہی نہیں تھی، لہٰذا یہ سوداگر کے مال و دولت کی حق دار نہیں ، آج جو کچھ اس بوڑھے سوداگر کے پاس ہے ، وہ سب میرے باپ کا ہے ‘‘۔ بادشاہ نے پوچھا ’’کیا تم سوداگر کی بیٹی ہونے کا ثبوت پیش کر سکتی ہو؟‘‘ لڑکی بولی،’’ حضور ! میری درخواست ہے کہ سوداگر کو ہی گواہ کے طور پر بلایا جائے ، میں نے جان بوجھ کر اپنی درخواست میں سوداگر کی بیٹی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بولے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملک میں جھوٹ بولنے کی سخت سزا ہے ۔ اس طرح سوداگر یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ میں سوداگر لقمان کی بیٹی ہوں اور یہی میں اس سے کہلوانا چاہتی ہوں ‘‘۔ بادشاہ نے فوراََ بوڑھے سوداگر کو دربار میں بلوایا۔ جب سوداگر دربار میں آیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا’’ تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟ یہ تمہاری بیٹی ہونے کا دعویٰ کرر ہی ہے ‘‘۔ بوڑھے سوداگر نے کہا، ’’ جہاں پناہ یہ میری بیٹی نہیں، سوداگر لقمان کی بیٹی ہے جسے مرے ہوئے بہت عرصہ گزر چکا ہے ،‘‘ بادشاہ نے دوبارہ پوچھا’’ کیا تم سچ کہہ رہے ہو کہ یہ تمہاری بیٹی نہیں بلکہ سوداگر لقمان کی بیٹی ہے ۔‘‘ سوداگر بولا’’ حضور میں بالکل ٹھیک کہ رہا ہوں ، یہ سوداگر لقمان کی بیٹی ہے ،‘‘ لڑکی نے بادشاہ سے کہا،’’ جہاں پناہ! میرے باپ کے مرنے کے بعد اسی سوداگر نے قاضی کی عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ میں سوداگر لقمان کی بیٹی نہیں ہوں ،‘‘ اسی وقت قاضی کو دربارمیں بلایا گیا۔ قاضی کو دیکھتے ہی سوداگر گڑگڑانے لگا ، ’’ حضور! مجھے معاف کردیں۔ یہ لڑکی سچ بول رہی ہے ، میں ساری دولت اسے دیتا ہوں ‘‘۔ لڑکی بولی’’ بادشاہ سلامت ! مجھے میرے باپ کی دولت مل گئی ، اسے معاف کر دیں‘‘۔ اس طرح لڑکی کی رحمدلی نے سوداگر کو سزا سے بچالیا۔
غرور کا نتیجہ:بہت عرصہ گزرا ، مصر کے ایک شہر میں ایک سوداگر رہتا تھا ۔ اس کے پاس ایک گھوڑا اورایک گدھا تھا، سوداگر ان پر تجارت کا مال لاد کر دوسرے ملکوں کو لے جاتا تھا، گھوڑا ہمیشہ اس بات پر فخر کرتا تھا کہ وہ اچھی نسل کا گھوڑا ہے اور مالک اسے گدھے سے بہتر سمجھتا ہے گدھا خاموشی سے سر جھکائے گھوڑے کی باتیں سنتا رہتا۔ ایک دن گھوڑے نے کہا،’’ میاں گدھے تمہاری زندگی بھی کس کام کی ، مالک تم سے دن بھر کام لیتا ہے ، مجھے دیکھو میں دن بھر اصطبل میں کھڑا رہتاہوں، مالک مجھے کھانے کو نرم نرم گھاس اور دانہ دیتا ہے ، میری خدمت کےلیے دو نوکر ہیں جو دن بھر میری مالش کرتے رہتے ہیں، مجھے خوشبودار صابن سے نہلاتے ہیں اور پھر دیر تک ٹہلاتے رہتے ہیں ، مالک جب بھی میرےقریب آتا ہے ، پیار سےمیری پیٹھ اور گردن پر ہاتھ پھیرتا ہے‘‘۔ گدھا گھوڑے کی یہ باتیں سن کر اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتا رہتا۔ اسی طرح ایک دن گدھا گھوڑے کی باتیں سن کر دیر تک روتا رہا، اتفاق سے ایک غریب لکڑہارا اُدھر سے گزر رہا تھا۔ اس نے گدھے کو روتے ہوئے دیکھا تو قریب آکر پوچھنے لگا،’’ میاں گدھے کیا بات ہے ، تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ تو اور کیا کروں ، مالک صرف گھوڑے کو ہی پیار کرتا ہے اور گھوڑے کو دیکھو، بس اپنی ہی تعریفیں کرتا رہتا ہے ۔ گدھے نے جواب دیا۔ گدھے کی باتیں سن کر لکڑ ہارا بولا’’ جو اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے وہ عقل مند نہیں ہوتا، ایک نہ ایک دن اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، میری ایک بات یاد رکھو ۔ جب تمہارا مالک سفر پر روانہ ہونےلگے تو تم بیماری کا بہانہ کرکے زمین پر لیٹے رہنا ، وہ تمہیں اُٹھائے تب بھی نہ اٹھنا۔ مالک تمہیں بیمار سمجھ کرسفر پر نہیں لے جائے گا اور تمام مال گھوڑے پر لاد دے گا ۔ جب زیادہ مال لدا ہوگا اور گھوڑے کی رفتار سست ہو جائے گی، تو مالک اسے تیز دوڑانے کے لیے چابک پر چابک مار کر اس کی کھال ادھیڑ دے گا ، تب گھوڑے کو پتہ چلے گا کہ مالک کو اس سے کتنا پیار ہے میاں گھوڑا ہو یا گدھا جو کام کرے گا مالک اسے ہی پیار کرے گا، ’’ تم ٹھیک کہتے ہو‘‘ گدھے نے جواب دیا۔ چند دنوں بعد جب سوداگر سفر پر جانے کی تیاری کرنے لگا تو گدھا جان بوجھ کر بیمار بن گیا۔ گدھے کو بیمار سمجھ کر سوداگر نے ساراوزن گھوڑے پر لاد دیا۔ پہلے تو گھوڑا سوداگر کے ساتھ اکیلے سفر پر جانے کی وجہ سے بہت خوش تھا ، لیکن جب اس پر اتنا زیادہ بوجھ ڈالا گیا تو گھوڑے کے ہوش ٹھکانے آگئے ، اس کے قدم آہستہ آہستہ اٹھنے لگے ، سوداگر نے گھوڑے پر چابک برساتے ہوئے کہا،’’ تم تو گدھے سے بھی زیادہ نکمے ہو۔ وہ بے چارہ سوکھی گھاس کھانے کے باوجود تم سے زیادہ وزن اٹھاتاہے اور تم ہو کہ نرم نرم تازہ گھاس اور دانہ کھاتے ہو، پھر بھی تمہارے قدم نہیں اٹھ رہے ، مجھے ہر گز یہ توقع نہ تھی کہ تم اتنے کام چور نکلو گے، تیز چلو ورنہ ما رمار کر کھال اتار دوں گا‘‘سوداگر کی یہ بات سن کر گھوڑا تیز تیز قدم اٹھانے لگا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد تھک کر چور ہوگیا اور چلتے چلتے رک گیا، سوداگر نے چابک مار مار کر اس کا براحال کر دیا۔ گھوڑے کے جسم پر جگہ جگہ اتنے زخم ہو گئے کہ ان سے خون بہنے لگا۔ گھوڑا روتے ہوئے کہنے لگا۔’’ مالک! میں وہی گھوڑا ہوں جس کو آپ ہمیشہ پیار کرتے تھے ، مجھ پر فخر کرتے تھے ، آج آپ نے مار مار کر مجھے لہولہان کر دیا ہے ۔ ‘‘ سوداگر بولا، ’’ تم جیسے کام چور اور نکمے جانور کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہئے ‘‘ ۔ گھوڑا خاموشی سے مالک کے طعنے سنتا رہا اور دل ہی دل میں اپنے کیے پر پچھتانے لگا۔ شام کو جب گھوڑا سفر سے واپس آیا تو گدھا پوچھنے لگا،’’ سنائو بھائی سفر کیسا رہا؟‘‘ گھوڑا بولا’’ دوست، تم ٹھیک کہتے تھے ، اس دنیا میں صرف کام کرنے والے کی قدر ہے ۔ مالک نے مجھ پر اتنا بوجھ ڈال دیا کہ میرے قدم نہیں اٹھتے تھے ۔ مالک نے مجھے بہت مارا، وہ مجھے نکما، کام چور کہتا اور تمھاری تعریف کرتارہا، میں تمھیں ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اسی لیے یہ دن دیکھنا پڑا۔‘‘ گدھا کہنے لگا کہ شکر ہے تمھیں اپنی غلطی کا احساس تو ہوا ،آئندہ کبھی کسی کو حقیر مت جانو۔ (انتخاب: سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)

 

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 433 reviews.